Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر11

حی علی الفلاح۔۔۔
حی علی الفلاح۔۔۔
اذان کی آواز سن کر فیصل کی آنکھ کھل گئی۔۔۔
جو الارم سے بھی جاگ نہ پاتا تھا آج خود ہی اس کی آنکھ کھل گئی۔۔۔
 وہ حیران بھی تھا اور خوش بھی۔۔۔اس نے وضو کیا۔۔۔
اس وقت وہ کافی راحت اور سکون محسوس کر رہا تھا۔۔۔پھر اس نے مسجد کا رخ کیا۔۔۔
یہ فیصل رات کو لائٹ بند کیے بنا ہی سو گیا۔۔۔
تھوڑی دیر میں عظمی بیگم بھی جاگ چکی تھیں...
انہوں نے دیکھا تو اس کے کمرے میں لائٹ بند کرنے کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔اندر فیصل نہیں تھا۔۔۔وہ گھبرا کر باہر نکلیں تو وہ اندر داخل ہو رہا تھا۔۔۔
سر پر ٹوپی دیکھ کر عظمی بیگم ساری بات جان گئیں اور کافی خوش ہوئیں۔۔۔
اس تبدیلی کی وجہ کیا ہے فیصل۔۔۔
انہوں نے ناشتے کے وقت مسکرا کر پوچھا۔۔۔
تو فیصل نے بھی جواب میں صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔۔۔
"محبت"۔۔۔شعیب مرزا کے منہ سے نکلا تو فیصل کا نوالہ حلق میں ہی اٹک گیا اس نے فوراً ان سنی کرتے ہوئے پانی کے دو گھونٹ بھرے تو نوالہ آگے لے جانے میں کامیاب ہوا۔۔۔
آج کافی دنوں بعد وہ تینوں اکٹھے ناشتہ پر موجود تھے۔۔۔
___________________________
آج ایمان کالج میں بہت خوش تھی۔۔۔
فیصل نے بتایا ہے وہ آئیں گے اس سنڈے کو۔۔۔اس نے زارا کو بتایا اسے بھی سن کر خوشی ہوئی۔۔۔
اور عمیر کو پتہ چلے گا تو۔۔۔؟
زارا کا سوال سن کر ایمان خاموش ہو گئی۔۔۔اس کی خوشی یک لخت پریشانی میں بدل گئی۔۔۔
___________________________
کامران کے فون کی بیل بجی۔۔۔
آرزو کی کال تھی۔۔۔
السلام علیکم۔۔۔اس نے ریسیو کرتے ہوئے کہا
وعلیکم السلام۔۔۔کیسی ہو آرزو۔۔۔
میں ٹھیک ہوں۔۔۔اچھا کیا تم فری ہو۔۔۔مجھے کچھ بات کرنی ہے۔۔۔
ہاں ہاں بولو۔۔۔
میں سوچ رہی تھی ہم فیصل کے ہوٹل میں پارٹی ارینج کر لیتے ہیں۔۔۔اس کا برتھ ڈے ہے نا اس فرائیڈے کو۔۔۔
اوہ ہاں۔۔۔میں تو بھول ہی گیا تھا۔۔۔لیکن تمہیں کیسے یاد تھا۔۔۔
میں کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔
اچھا میں شام میں بتاؤں گا تمہیں اس بارے میں۔۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔۔میں انتظار کروں گی۔۔۔اللہ حافظ
___________________________
رات کو ایمان کی فیصل سے بات ہو رہی تھی۔۔۔
کیا آپ نے پہلے کبھی کسی سے۔۔۔شادی کا سوچا ہے؟
نہیں۔۔۔پہلے تم ملیں ہی نہیں۔۔۔کیسے سوچتا۔۔۔مجھے یقین ہے میری قسمت میں صرف تم ہی تھیں۔۔۔
پر تم ایسا کیوں پوچھ رہی ہو۔۔۔
وہ۔۔۔مجھے کسی نے کہا کہ یہ امیر لڑکے۔۔۔کسی ایک لڑکی کے نہیں ہوتے۔۔۔لیکن۔۔۔میں نے آپ پر اعتماد کیا ہے۔۔۔آپ میرا یقین ہیں۔۔۔میں نے اس کی بات کا انکار کر دیا۔۔۔
یہ تم سے کس نے کہا ایمان۔۔۔تمہارے علاوہ میری زندگی میں کوئی نہیں ہے نہ کوئی تھا۔۔۔پلیز دوبارہ ایسا مت کہنا۔۔۔
اچھا پلیز آپ ناراض نہ ہوں۔۔۔میں نے بس ایسے ہی پوچھ لیا۔۔۔
سنو۔۔۔میرا برتھ ڈے ہے اس فرائیڈے کو۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ تم یہاں ہوٹل آؤ۔۔۔مجھے بہت خوشی ہو گی۔۔۔
اوہ اچھا۔۔۔لیکن میں نہیں آ سکتی۔۔۔آپ نے آنا تو ہے یہاں سنڈے کو ویسے بھی۔۔۔اور اس طرح میں آؤں گی بھی کیسے۔۔۔پرمیشن نہیں ملتی۔۔۔
فیصل اداس ہو گیا۔۔۔وہ اپنے برتھ ڈے کے پر مسرت موقع پر کچھ لمحات ایمان کے ساتھ گزارنا چاہتا تھا۔۔۔
___________________________
جمعہ آیا۔۔۔وہاں آرزو اور کامران نے فیصل کے لیے شام میں پارٹی ارینج کی تھی۔۔۔
کامران تو کام کا کہہ کر وہاں سے جلد لوٹ گیا لیکن آرزو کچھ دیر اور رک گئی۔۔۔
___________________________
امی پرسوں خالہ نے آنا ہے تو مجھے کچھ شاپنگ کرنی ہے۔۔۔
میں نور کے ساتھ مارکیٹ چلی جاؤں تھوڑی دیر کے لیے۔۔۔
چلی جاؤ۔۔۔انہوں نے روکھا سا جواب دیا۔۔۔لیکن اب تک یہ نہ بتایا کہ خالہ نہیں آ رہیں بلکہ کوئی اور آ رہا ہے۔۔۔
اس نے رستے سے فیصل کے لیے ایک خوبصورت گھڑی خریدی۔۔۔اب اس کا رخ ہوٹل کی جانب تھا۔۔۔
فیصل کو مجھے یوں اچانک دیکھ کر کتنی خوشی ہو گی۔۔۔وہ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔۔۔
___________________________
میں آج تم سے ایک خاص بات کرنا چاہتی ہوں فیصل۔۔۔
ہاں کہو آرزو۔۔۔
اپنی زندگی میں۔۔۔۔اب تک میں نے ایک ہی شخص سے محبت کی ہے۔۔۔
اور وہ تم ہو فیصل۔۔۔آرزو کی آنکھوں میں اس کی بات کی سچائی دکھ رہی تھی۔۔۔
فیصل یہ سن کر ششدر رہ گیا۔۔۔
اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آرزو اس سے واقعی محبت کرتی ہے۔۔۔وہ تو بس اسے ایک اچھی دوست سمجھتا تھا۔۔۔
میں بس تمہارا ساتھ چاہتی ہوں فیصل۔۔۔
آرزو۔۔۔فیصل نے اس کو مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔۔۔
اصل میں بات یہ ہے کہ۔۔۔میں تمہیں ہمیشہ سے اچھی دوست سمجھتا ہوں۔۔۔اور سمجھتا رہوں گا۔۔۔لیکن۔۔۔میں نے کبھی اس حوالے سے نہیں سوچا۔۔۔
انفیکٹ میں کسی اور سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور عنقریب کرنے والا ہوں۔۔۔
لیکن میرا اور میری محبت کا کیا ہو گا فیصل۔۔۔ آرزو نے دبی آواز میں کہا۔۔۔فیصل نے سر اٹھایا تو آرزو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہ بہت اداس ہو گیا۔۔۔آرزو ہم نے ہمیشہ اچھا وقت گزارا ہے ۔۔۔ہماری ایک دوسرے کے ساتھ خوبصورت یادیں جڑی ہیں۔۔۔آج پہلی بار تمہاری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہو رہا ہے۔۔۔لیکن اس کی وجہ میں نہیں ہوں آرزو۔۔۔یہ محبت ہے۔۔۔جو بنا پوچھے بنا بتائے کسی سے بھی ہو جاتی ہے۔۔۔نہ ذات پات دیکھتی ہے نہ رنگ نسل۔۔۔یہ تو خود مختار ہے۔۔۔وہ ایک لمحہ کو رکا۔۔۔پھر دوبارہ بولا۔۔۔
یہ محبت کوئی آسان چیز نہیں ہے آرزو۔۔۔یہ تو ایک ایسا گہرا سمندر ہے جس کی سطح کا اندازہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔۔۔کاش کہ محبت پر کسی کا اختیار ہوتا۔۔۔اس نے ایک آہ بھری
ٹھیک ہے۔۔۔تمہاری محبت میں تم سے دوری بھی سہی فیصل۔۔۔تمہارے لیے تو میں کچھ بھی کر لوں گی۔۔۔
آرزو پلیز۔۔۔۔ہم ہمیشہ سے اچھے دوست ہیں اور رہیں گے۔۔۔
اچھا میں چلتی ہوں کافی دیر ہو گئی ہے۔۔۔
میں تمہیں نیچے تک چھوڑ دیتا ہوں۔۔۔
عین اسی لمحے ایمان اوپر آ رہی تھی۔۔۔اس نے دیکھا فیصل کسی اور لڑکی کے ساتھ نیچے آ رہا ہے۔۔۔وہ وہیں کی وہیں ساکت کھڑی رہ گئی۔۔۔ مزید ایک قدم بھی ہلانا اس کے لیے مشکل ہو گیا تھا۔۔۔اس کا وہ اعتبار اور اعتماد۔۔۔فیصل پر یقین۔۔۔اس کی محبت۔۔۔سب اپنی آنکھوں کے سامنے ناچتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔۔۔
""یہ امیر لڑکے نا۔۔۔ان سے اتنی امید نہیں رکھنی چاہیے۔۔۔""
ہو سکتا ہے وہ اور بھی کسی کے ساتھ ریلیشن میں ہو۔۔۔""
زارا کے جملے ایمان کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔۔
فیصل اور آرزو کی حالت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔۔۔وہ دونوں بھی اپنی اپنی جگہ ساکن تھے۔۔۔
ایمان نے چہرے سے نقاب سرکا دیا۔۔۔
آرزو نے ایمان کو دیکھا اور دل میں سوچا۔۔۔واقعی فیصل کی غلطی نہیں ہے۔۔۔غلطی تو شاید اس حسن کی ہے جسے کوئی بھی اہل نظر دیکھے تو  محبت کے سوا کچھ کر ہی نہ سکے۔۔۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتی ہوٹل سے باہر نکل گئی۔۔۔ایمان اب بھی فیصل کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔۔۔
ایمان۔۔۔وہ آرزو ہے۔۔۔ہم نے یونیورسٹی میں ساتھ پڑھا ہے دو سال۔۔۔وہ برتھ ڈے وش کرنے آئی تھی بس۔۔۔ایمان کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر فیصل آہستگی سے  بولا۔۔۔
آپ نے تو کہا تھا۔۔۔میرے علاوہ کوئی نہیں ہے آپ کی زندگی میں۔۔۔
وہ فیصل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
ہاں وہ بس میری اچھی دوست ہے۔۔۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔۔۔فیصل نے جواب دیا۔۔۔
ایک لڑکی جب کسی سے محبت کرتی ہے نا۔۔۔تو وہ سب کچھ برداشت کر لیتی ہے لیکن۔۔۔۔اپنے محبوب کو کسی اور لڑکی کے ساتھ دیکھنا برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔
شاید یہ نظریہ یہ سوچ صرف ہم بند اور چھوٹے گھروں والی لڑکیوں کی ہی ہو۔۔۔
چاہے آپ اسے پوزیشن possession کا نام دیں۔۔۔ تنگ نظری یا چھوٹی سوچ کہیں۔۔۔تو یہ تنگ نظری ہی سہی۔۔۔لیکن میں آپ کو کسی اور کے ساتھ نہیں دیکھ سکتی۔۔۔اگر آپ میرے ہیں تو صرف میرے ہیں۔۔۔ورنہ۔۔۔میرے بھی نہیں ہیں۔۔۔اس کی آنکھوں میں نمی دیکھ کر فیصل بھی نم آنکھوں کے ساتھ اس کی معصومیت پر مسکرا دیا۔۔۔
آپ وعدہ کریں کہ آئندہ اس سے نہیں ملیں گے۔۔۔آپ کو اس سے رابطہ ختم کرنا ہو گا۔۔۔
فیصل کیسے بتاتا کہ اس بیچاری کو تو ٹالا ہی اسی بات پر ہے کہ تم سے دوستی کا تعلق قائم رہے گا۔۔۔اب اچانک وہ بھی ختم کر دوں تو اس کا کیا ہو گا۔۔۔
لیکن اس کو ایمان سے وعدہ کرنا ہی پڑا۔۔۔
___________________________
وہاں آرزو گھر پہنچی تو اس کی حالت ایسی تھی گویا ایک عرصہ تک وہ کوئی جنگ لڑتی رہی ہو اور آج فتح کے دہانے پر پہنچ کر بازی پلٹ گئی ہو۔۔۔
وہ خاموش تھی۔۔۔آخر لڑکی تھی۔۔۔لڑکوں کی طرح سیگریٹ کے کش لگا کر گلیوں میں نہیں پھر سکتی تھی۔۔۔اپنے سامنے پڑی وہ کتاب جس کے پہلے صفحے پر تینوں دوستوں نے ایک یادگار موقع پہ سائن کیے تھے۔۔۔اس نے وہ صفحہ چھوڑ کر ایک ایک صفحہ پکڑ کر پھاڑ دیا۔۔۔اس وقت کمرے میں صفحات کے ٹکڑوں کے سوا کچھ نہ تھا۔۔۔یہ صفحات اس کی زندگی کے صفحات معلوم ہو رہے تھے جنہیں اسی انداز میں قسمت اور تقدیر نے پھاڑ کر پھینک دیا تھا۔۔۔
وہ اپنے کمرے میں ڈریسنگ کے شیشہ پر ایک زوردار مکا مارنے کے قریب تھی لیکن رک گئی۔۔۔
___________________________
میں وعدہ کرتا ہوں کہ آج کے بعد کسی لڑکی سے نہیں ملوں گا۔۔۔
اب تو مسکرا دو پلیز۔۔۔آج میری زندگی کا اہم دن ہے۔۔۔ایسے میں تمہاری مسکان کی بہت ضرورت ہے مجھے۔۔۔دیکھو ان حسین لمحات کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے کے لیے چاند بھی کتنا بے تاب ہے اور تارے بھی یہی چاہتے ہیں۔۔۔اس نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔تم نہیں جانتیں کہ اس طرح اچانک تمہارا آنا میرے لیے کتنی خوشی کا باعث ہے۔۔۔اس نے ایمان کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا وہ شرما کر اپنا ہاتھ ہٹانا چاہتے ہوئے بھی ہٹا نہ سکی اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔۔۔
پھر اس نے وہ خوبصورت گھڑی نکال کر فیصل کو پیش کی تو فیصل کی خواہش پر اپنے ہاتھوں سے ہی اسے پہنا بھی دی۔۔۔ہیپی برتھ ڈے۔۔۔
وہ دونوں کچھ لمحے ایک دوسرے کی آنکھوں میں محبت کے سمندر کے شفاف پانی پر پڑنے والی چاند کی چمکتی روشنی کا عکس دیکھتے رہے۔۔۔
میں اب چلتی ہوں فیصل۔۔۔میرے پاس وقت نہیں ہے۔۔۔
یہ تم کیا کہہ رہی ہو ایمان۔۔۔نہ کچھ کھایا نہ پیا۔۔۔اور کیک تک تو کاٹا نہیں ہے۔۔۔یوں تو نہیں جانے دوں گا تمہیں۔۔۔
نہیں پلیز۔۔۔میں بہت مشکل سے آپ کی خاطر آئی ہوں۔۔۔اب مجھے جانا ہے۔۔۔اور وہ چلی گئی۔۔۔
اچھا چلو کیک کاٹ کر چلی جانا۔۔۔
مجبوراً اس کو کیک کاٹنا پڑا۔۔۔اور ایک ٹکڑا فیصل کو کھلا دیا۔۔۔پھر اس کے ہاتھوں سے بھی ایک بائٹ لی اور واپس چل دی۔۔۔اس دوران بیچاری نور کو کافی دیر باہر انتظار کرنا پڑا تھا۔۔۔

   1
0 Comments